سُوْرَةُ الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :4

4۔ یعنی جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ معقولیت کے ساتھ ان کو سمجھانے اور راہ راست دکھانے کی جو کوشش بھی جاۓ اس کا مقابلہ بے رخی و بے التفاتی سے کریں ، ان کا علاج یہ نہیں ہے کہ ان کے دل میں زبردستی ایمان اتارنے کے لیے آسمان سے نشانیاں نازل کی جائیں ، بلکہ ایسے لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ جب ایک طرف انہیں سمجھانے کا حق پورا پورا ادا کر دیا جاۓ اور دوسری طرف وہ بے رخی سے گزر کر قطعی اور کھلی تکذیب پر، اس سے بھی آگے بڑھ کر حقیقت کا مذاق اڑانے پر اتر آئیں ، تو ان کا انجام بد انہیں دکھا دیا جاۓ۔ یہ انجام بد اس شکل میں بھی انہیں دکھایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں وہ حق ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی ساری مزاحمتوں کے باوجود غالب آ جاۓ جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ اس کی شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان پر ایک عذاب الیم نازل ہو جاۓ اور وہ تباہ و بر باد کر کے رکھ دیے جائیں۔ اور وہ اس شکل میں بھی ان کے سامنے آسکتا ہے کہ چند سال اپنی غلط فہمیوں میں مبتلا رہ کر وہ مو کی ناگزیر منزل سے گزریں اور آخر کار ان پر ثابت ہو جاۓ کہ سراسر باطل تھا جس کی راہ میں انہوں نے اپنی تمام سرمایہ زندگانی کھپا دیا اور حق وہی تھا جسے انبیاء علیہم السلام پیش کرتے تھے اور جسے یہ عمر بھر ٹھٹھوں میں اڑاتے رہے۔ اس انجام بد کے سامنے آنے کی چونکہ بہت سی شکلیں ہیں اور مختلف لوگوں کے سامنے وہ مختلف صورتوں سے آسکتا ہے اور آتا رہا ہ، اسی لیے آیت میں نَبَاء کے بجاۓ اَنْبَاء بصیغہ جمع فرمایا گیا، یعنی جس چیز کا یہ مذاق اڑا رہے ہیں اس کی حقیقت آخر کار بہت سی مختلف شکلوں میں انہیں معلوم ہو گی۔