سُوْرَةُ الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :26

26۔ غیبت کی تعریف یہ ہے کہ ’’ آدمی کسی شخص کے پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہے جو اگر اسے معلوم ہو تو اس کو ناگوار گزرے ‘‘۔ یہ تعریف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت جسے مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور دوسرے محدثین نے نقل کیا ہے، اس میں حضور نے غیبت کی یہ تعریف بیان فرمائی ہے :
ذکرک اخاک بما یکرہ قیل افرأیت ان کان فی اخی ما اقول؟ قال ان کان فیہ ما تقول فقد بھتَّہٗ۔ غیبت یہ ہے کہ ’’ تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے ناگوار ہو‘‘ عرض کیا گیا کہ اگر میرے بھائی میں وہ بات پائی جاتی ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو اس صورت میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا اگر اس میں وہ بات پائیجاتی ہو تو تُو نے اس کی غیبت کی، اور اگر اس میں ہو موجود نہ ہو تو تُو نے اس پر بہتان لگایا۔
ایک دوسری روایت جو امام مالک نے مؤَطّاء میں حضرت مُطَّلِب بن عبداللہ سے نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:
ان رجلا سئل رسول اللہ ﷺلیاللہ علیہ و سلم ما الغیبۃ؟ فقال ان تذکر من المرءمایکرہ ان یسمع۔ قال یا رسول اللہ وان کان حقّا؟ قال اذاقلت بَاطلاً فذٰلک البھتان۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا غیبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا’’ یہ کہ تو کسی شخص کا ذکر اس طرح کرے کہ وہ سنے تو اسے نا گوار ہو‘‘۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر چہ میری بات حق ہو؟ آپ نے جواب دیا اگر تیری بات باطل ہو تو یہی چیز پھر بہتان ہے۔
ان ارشادات سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے خلاف اس کے پیچھے جھوٹا الزام لگانا بہتان ہے اور اس کے واقعی عیوب بیان کرنا غیبت۔ یہ فعل خواہ صریح الفاظ میں کیا جاۓ یا اشارہ و کنایہ میں، بہر صورت حرام ہے۔ اسی طرح یہ نعل خواہ آدمی کی زندگی میں کیا جاۓ یا اس کے مرنے کے بعد، دونوں صورتوں میں اس کی حرمت یکساں ہے۔ ابوداؤد کی روایت ہے کہ ماعز بن مالک اسلمی کو جب زنا کے جرم میں رحم کی سزا دے دی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے راہ چلتے ایک صاحب کو اپنے دوسرے ساتھی سے یہ کہتے سن لیا کہ’’ اس شخص کو دیکھو، اللہ نے اس کا پردہ ڈھانک دیا تھا، مگر اس کے نفس نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک یہ کُتے کی موت نہ مار دیا گیا‘‘۔ کچھ دور آگے جا کر راستے میں ایک گدھے کی لاش سڑتی ہوئی نظر آئی۔ حضورؐ رک گۓ اور ان دونوں اصحاب کو بلا کر فرمایا ’’ اتریے اور اس گدھے کی لاش تناول فرمائیے ‘‘ ان دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ اسے کون کھاۓ گا؟ فرمایا : نما نلتما من عِرض اخیکما اٰنفاً اشد من اکل منہ۔ ‘‘ ابھی ابھی آپ لوگ اپنے بھائی کی عزت پر جو حرف زنی کر رہے تھے وہ اس گدھے کی لاش کھانے سے بہت زیادہ بری تھی‘‘۔
اس حرمت سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی شخص کے پیٹھ پیچھے، یا اس کے مرنے کے بعد اس کی برائی بیان کرنے کی کوئی ایسی ضرورت لاحق ہو جو شریعت کی نگاہ میں ایک صحیح ضرورت ہو، اور وہ ضرورت غیبت کے بغیر پوری نہ ہو سکتی ہو، اور اس کے لیے اگر غیبت نہ کی جاۓ تو غیبت کی بہ نسبت زیادہ بڑی برائی لازم آتی ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس استثناء کو اصولاً یوں بیان فرمایا ہے :
ان من اربیٰ الربا الا ستطا لۃ فی عرض المسلم بغیر حق (ابوداؤد) بد ترین زیادتی کسی مسلمان کی عزت پر ناحق حملہ کرنا ہے۔
اس ارشاد میں ’’ ناحق‘‘ کی قید یہ بتاتی ہے کہ ’’حق‘‘ کی بنا پر ایسا کرنا جائز ہے۔ پھر خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے طرز عمل میں ہم کو چند نظیریں ایسی ملتی ہیں جن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ’’حق‘‘ سے مراد کیا ہے اور کس قسم کے حالات میں غیبت بقدر ضرورت جائز ہو سکتی ہے۔
ایک مرتبہ ایک بدو آ کر حضورؐ کے پیچھے نماز میں شامل ہوا اور نماز ختم ہوتے ہی یہ کہتا ہوا چل دیا کہ ’’خدایا مجھ پر رحم کر اور محمد پر، اور ہم دونوں کے سوا کسی کو اس رحمت میں شریک نہ کر‘‘۔ حضورؐ نے صحابہ سے فرمایا اتقولون ھواضلّ ام بعیرہ؟ الم تسمعو ا الیٰ ما قال؟ ’’ تم لوگ کیا کہتے ہو، یہ شخص زیادہ نادان ہے یا اس کی اونٹ؟تم نے سنا نہیں کہ یہ کیا کہہ رہا تھا‘‘(ابو داؤد)۔ یہ بات حضورؐ کو اس کے بیٹھ پیچھے کہنی پڑی کیونکہ وہ سلام پھیرتے ہی جا چکا تھا اس نے چونکہ حضورؐ کی موجودگی میں ایک بہت غلط بات کہہ دی تھی، اور آپ کا اس پر خاموش رہ جانا کسی شخص کو اس غلط فہمی میں ڈال سکتا تھا کہ ایسی بات کہنا کسی درجہ میں جائز ہو سکتا ہے، اس لیے ضروری تھا کہ آپ اس کی تردید فرمائیں۔
ایک خاتون فاطمہ بنت قیس کو دو صاحبوں نے نکاح کا پیغام دیا۔ ایک حضرت معاویہ دوسرے حضرت ابوالجہم۔ انہوں نے آ کر حضورؐ سے مشورہ طلب کیا۔ آپ نے فرمایا ’’ معاویہ مفلس ہیں اور ابولجہم بیویوں کو بہت مارتے پیٹتے ہیں‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔ یہاں ایک خاتون کے لیے مستقبل کی زندگی کا مسئلہ در پیش تھا اور حضور سے انہوں نے مشورہ طلب کیا تھا اس حالت میں آپ نے ضروری سمجھا کہ دونوں صاحبوں کی جو کمزوریاں آپ کے علم میں ہیں وہ انہیں بتا دیں۔
ایک روز حضورؐ حضرت عائشہ کے ہاں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص نے آ کر ملاقات کی اجازت طلب کی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ اپنے قبیلے کا بہت بُرا آدمی ہے۔ پھر آپ باہر تشریف لے گۓ اور اس سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی۔ گھر میں واپس تشریف لاۓ تو حضرت عائشہ نے عرض کیا آپ نے تو اس سے بڑی اچھی طرح گفتگو فرمائی حالانکہ باہر جاتے وقت آپ نے اس کے متعلق وہ کچھ فرمایا تھا۔ جواب میں آپ نے فرمایا : انّشرّالناس منزلۃً عند اللہ یوم القیٰمۃ من ودعہ (اونزکہ) الناس اتقاء فحشہ۔ ‘’خدا کے نزدیک قیامت کے روز بد ترین مقام اس شخص کا ہو گا جس کی بد زبانی سے ڈر کر لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں‘‘(بخاری و مسلم)۔ اس واقعہ پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ حضورؐ نے اس شخص کے متعلق بُری راۓ رکھنے کے باوجود اس کے ساتھ اچھی طرح بات چیت تو اس لیے کی کہ آپ کا اخلاق اسی کا تقاضا کرتا تھا۔ لیکن آپ کو یہ اندیشہ ہوا کہ آپ کے گھر والے آپ کو اس سے مہر بانی برتتے دیکھ کر کہیں سے آپ کا دوست نہ سمجھ لیں اور بعد میں کسی وقت وہ اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھاۓ۔ اس لیے آپ نے حضرت عائشہ کو خبر دار کر دیا کہ وہ اپنے قبیلے کا بہت بُرا آدمی ہے۔
ایک موقع پر حضرت ابو سفیان کی بیوی ہند بن عتبہ نے آ کر حضور سے عرض کیا کہ ’’ ابو سفیان ایک بخیل آدمی ہیں، مجھے اور میرے بچوں کو اتنا نہیں دیتے جو ضروریات کے لیے کافی ہو‘‘ (بخاری و مسلم)۔ بیوی کی طرف سے شوہر کی غیر موجودگی میں یہ شکایت اگر چہ غیبت تھی، مگر حضورؐ نے اس کو جائز رکھا، کیونکہ مظلوم کو یہ حق پہنچتا ہے کہ ظلم کی شکایت کسی ایسے شخص کے پاس لے جاۓ جو اس کو رفع کرا سکتا ہو۔
سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ان نظیروں سے استفادہ کر کے فقہاءو محدثین نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ ’’ غیبت صرف اس صورت میں جائز ہے جب کہ ایک صحیح(یعنی شرعاً صحیح) غرض کے لیے اس کی ضرورت ہو اور وہ ضرورت اس کے بغیر پوری نہ ہو سکتی ہو‘‘۔ پھر اسی قاعدے پر بنا رکھتے ہوۓ علماء نے غیبت کی حسب ذیل صورتیں جائز قرار دی ہیں :
1)۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی شکایت ہر اس شخص کے سامنے جس سے وہ یہ توقع رکھتا ہو کہ وہ ظلم کو دفع کرنے کے لیے کچھ کر سکتا ہے۔
2)۔ اصلاح کی نیت سے کسی شخص یا گروہ کی بُرائیوں کا ذکر ایسے لوگوں کے سامنے جن سے یہ امید ہو کہ وہ ان برائیوں کو دور کرنے کے لیے کچھ کر سکیں گے۔
3)۔ استفتاء کی غرض سے کسی مفتی کے سامنے صورت واقعہ بیان کرنا جس میں کسی شخص کے کسی غلط فعل کا ذکر آ جاۓ۔
4)۔ لوگوں کو کسی شخص یا اشخاص کے شر سے خبر دار کرنا تا کہ وہ اس کے نقصان سے بچ سکیں۔ مثلاً راویوں، گواہوں اور مصنفین کی کمزوریاں بیان کرنا بالاتفاق جائز ہی نہیں واجب ہے کیونکہ اس کے بغیر شریعت کو غلط روایتوں کی اشاعت سے، عدالتوں کو بے انصافی سے، اور عوام یا طالبانِ علم کو گمراہیوں سے بچانا ممکن نہیں ہے۔ یا مثلاً کوئی شخص کسی سے شادی بیاہ کا رشتہ کرنا چاہتا ہو، یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو، یا کسی سے شرکت کا معاملہ کرنا چاہتا ہو، یا کسی کو اپنی امانت سونپنا چاہتا ہو اور آپ سے مشورہ لے تو آپ کے لیے واجب ہے کہ اس کا عیب و صواب اسے بتا دیں تاکہ نا واقفیت میں وہ دھوکا نہ کھاۓ۔
5)۔ ایسے لوگوں کے خلاف علیٰ الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں پر تنقید کرنا جو فسق و فجور پھیلا رہے ہوں، یا بدعات اور گمراہیوں کی اشاعت کر رہے ہوں، یا خلق خدا کو بے دینی اور ظلم و جَور کے فتنوں میں مبتلا کر رہے ہوں۔
6)۔ جو لوگ کسی برے لقب سے اس قدر مشہور ہو چکے ہوں کہ وہ اس لقب کے سوا کسی اور لقب سے پہچانے نہ جا سکتے ہوں ان کے لیے وہ لقب استعمال کرنا بغرض تعریف نہ کہ بغرض تنقیص۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، فتح الباری جلد 10،ص 362۔ شرح مسلم للنودی، باب تحریم الغیبۃ۔ ریاض الصالحین، باب کایباح من الغیبۃ۔ احکام القرآن للجصاص و روح المعانی، تفسیر آیہ ولا یغتب بعضکم بعضاً)۔
ان مستثنیٰ صورتوں کے ماسوا پیٹھ پیچھے کسی کی بد گوئی کرنا مطلقاً حرام ہے۔ یہ بد گوئی اگر سچی ہو تو غیبت ہے، جھوٹی ہو تو بہتان ہے، اور دو آدمیوں کو لڑانے کے لیے ہو تو چغلی ہے۔ شریعت ان تینوں چیزوں کو حرام کرتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ اگر اس کے سامنے کسی شخص پر جھوٹی تہمت لگائی جا رہی ہو تو وہ اس کو خاموشی سے نہ سنے بلکہاس کی تردید کرے، اور اگر کسی جائز شرعی ضرورت کے بغیر کسی کی واقعی برائیاں بیان کی جا رہی ہوں تو اس فعل کے مرتکبین کو خدا سے ڈرانے اور اس گناہ سے باز رہنے کی تلقین کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ:
ما من امرئٍ یخذل امرءًا مسْلماً فی موضع تنتھک فیہ حرمتہ و ینتقص فیہمن عرضِہٖ الّا خذلہ اللہ تعالیٰ فی مواطن یحبّ فیھا نصرتہ، وما من امریءٍ ینصر امرءً ا مسْلماً فی مو ضع ینتقص فِیہ مِن عِرضہٖ وینتھک فیہِمِنْ حرمتہٖ الّا نصرہ اللہ عز و جل فی مواطن یحب فیحا نصرتہ (ابوداؤد)۔ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر نہیں کرتا جہاں اس کی تذلیل کی جا رہی ہو اور اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حمایت ایسے مواقع پر نہیں کرتا جہاں وہ اللہ کی مدد کا خواہاں ہو۔ اور اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر کرتا ہے جہاں اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہو اور اس کی تذلیل و توہین کی جا رہی ہو تو اللہ عزوجل اس کی مدد ایسے مواقع پر کرتا ہے جہاں وہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی مدد کرے۔
رہا غیبت کرنے والا، تو جس وقت بھی اسے احساس ہو جاۓ کہ وہ اس گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے یا کر چکا ہے، اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ اللہ سے توبہ کرے اور اس حرام فعل سے فک جاۓ۔ اس کے بعد دوسرا فرض اس پر یہ عائد ہوتا ہے کہ حتی الامکان اس کی تلافی کرے۔ اگر اس نے کسی مرے ہوۓ آدمی کی غیبت کی ہو تو اس کے حق میں کثرت سے دعاۓ مغفرت کرے۔ اگر کسی زندہ آدمی کی غیبت کی ہو اور وہ خلاف واقعہ بھی ہو تو ان لوگوں کے سامنے اس کی تردید کرے جن کے سامنے وہ پہلے یہ بہتان تراشی کر چکا ہے۔اور اگر سچی غیبت کی ہو تو آئندہ پھر کبھی اس کی برائی نہ کرے اور اس شخص سے معافی مانگے جس کی اس نے برائی کی تھی۔ علماء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ معافی صرف اس صورت میں مانگنی چاہیے جب کہ اس شخص کو اس کا علم ہو چکا ہو، ورنہ صرف توبہ پر اکتفا کرنا چاہیے، کیونکہ اگر وہ شخص بے خبر ہو اور غیبت کرنے والا معافی مانگنے کی خاطر اسے جا کر یہ بتاۓ کہ میں نے تیری غیبت کی تھی تو یہ چیز اس کے لیے اذیت کی موجب ہو گی۔