سُوْرَةُ الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :27

27۔ اس فقرے میں اللہ تعالیٰ نے غیبت کو مرے ہوۓ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دے کر اس فعل کے انتہائی گھناؤنا ہونے کا تصور دلایا ہے۔ مردار کا گوشت کھانا بجاۓ خود نفرت کے قابل ہے، کجا کہ وہ گوشت بھی کسی جانور کا نہیں بلکہ انسان کا ہو، اور انسان بھی کوئی اور نہیں خود اپنا بھائی ہو۔ پھر اس تشبیہ کو سوالیہ انداز میں پیش کر کے اور زیادہ مؤثر بنا دیا گیا ہے گا کہ ہر شخص اپنے ضمیر سے پوچھ کر خود فیصلہ کرے کہ آیا وہ اپنے مرے ہوۓ بھائی کا گوشت کھانے کے لیے تیار ہے؟ اگر نہیں ہے اور اس کی فطرت اس چیز سے گھن کھاتی ہے تو آخر وہ کیسے یہ بات پسند کرتا ہے کہ اپنے ایک مومن بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی عزت پر حملہ کرے جہاں وہ اپنی مدافعت نہیں کر سکتا اور جہاں اس کو یہ خبر تک نہیں ہے کہ اس کی بے عزتی کی جا رہی ہے؟ اس ارشاد سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ غیبت کے حرام ہونے کی بنیادی وجہ اس شخص کی دل آزاری نہیں ہے جس کی غیبت کی گئی ہو، بلکہ کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کرنا بجاۓ خود حرام ہے قطع نظر اس سے کہ اس کو اس کا علم ہو یا نہ ہو اور اس کا اس فعل سے اذیت پہنچے یا نہ پہنچے۔ ظاہر ہے کہ مرے ہوۓ آدمی کا گوشت کھانا اس لیے حرام نہیں ہے کہ مردے کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ مردہ بے چارہ تو اس سے بے خبر ہوتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد کوئی اس کی لاش بھنبوڑ رہا ہے۔ مگر یہ فعل بجاۓ خود ایک نہایت گھناؤنا فعل ہے۔ اسی طرح جس شخص کی غیبت کی گئی ہو اس کو بھی اگر کسی ذریعہ سے اس کی اطلاع نہ پہنچے تو وہ عمر بھر اس بات سے بے خبر رہے گا کہ کہاں کس شخص نے کب اس کی عزت پر کن لوگوں کے سامنے حملہ کیا تھا اور اس کی وجہ سے کس کس کی نظر میں وہ ذلیل و حقیر ہو کر رہ گیا۔ اس بے خبری کی وجہ سے اسے اس غیبت کی سرے سے کوئی اذیت نہ پہنچے گی، مگر اس کی عزت پر بہر حال اس سے حرف آۓ گا، اس لیے یہ فعل اپنی نوعیت میں مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے مختلف نہیں ہے۔