سُوْرَةُ الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :31

31۔ اصل میں قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا کے الفاظ استعمال ہوۓ ہیں جن کو دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ کہو ہم مسلمان ہو گۓ ہیں‘‘ ان الفاظ سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ قرآن مجید کی زبان میں ’’مومن ‘‘اور ’’مسلم ‘‘دو متقابل اصطلاحیں ہیں، مومن وہ ہے جو سچے دل سے ایمان لایا ہو اور مسلم وہ ہے جس نے ایمان کے بغیر محض ظاہر میں اسلام قبول کر لیا ہو۔ لیکن در حقیقت یہ خیال بالکل غلط ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس جگہ ایمان کا لفظ قلبی تصدیق کے لیے اور اسلام کا لفظ محض ظاہر اطاعت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ مگر یہ سمجھ لینا صحیح نہیں ہے کہ یہ قرآن مجید کی دو مستقل اور باہم متقابل اصطلاحیں ہیں۔ قرآن کی جن آیات میں اسلام اور مسلم کے الفاظ استعمال ہوۓ ہیں ان تتبعُّ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں ’’ اسلام‘‘ اس دین حق کا نام ہے جو اللہ نے نوع انسانی کے لیے نازل کیا ہے، اس کے مفہوم میں ایمان اور اطاعت امر دونوں شامل ہیں، اور ’’مسلم‘‘ وہ ہے جو سچے دل سے مانے اور عملاً اطاعت کرے۔ مثال کے طور پر حسب ڈیل آیات ملاحظہ ہوں:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاَسْلَا مُ (آل عمران 19 ) یقیناً اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
وَمَنْیَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِ سْلَامِ دِیْناًفَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ۔ (آل عمران۔85) اور جو اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے اس کا وہ دین ہر گز قبول نہ کیا جاۓ گا۔
وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً (المائدہ۔3) اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کیا ہے۔
فَمَنْ یُّرِدِ اللہُ اَنْ یَّھْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ۔ (الانعام۔ 125) اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینا اسلام کے لیے کھول دینات ہے۔
ظاہر ہے کہ ان آیات میں ’’ اسلام‘‘ سے مراد اطاعت بالا ایمان نہیں ہے۔ پھر دیکھیے جگہ جگہ اس مضمون کی آیات آتی ہیں:
قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّ لِ مَنْ اَسْلَمَ۔ (الانعام۔ 14) اے نبی کہا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والا میں ہوں۔
فَاِنْ اَسْلَمُو افَقَدِ اھْتَدَوْا (آل عمران۔20) پھر اگر وہ اسلام لے آئیں تو انہوں نے ہدایت پالی۔
یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا (المائدہ۔ 44) تمام انبیاء جو اسلام لاۓ تھے تو رات کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔
کیا یہاں اور اس طرح کے بیسیوں دوسرے مقامات پر اسلام قبول کرنے یا اسلام لانے کا مطلب ایمان کے بغیر اطاعت اختیار کر لینا ہے؟ اسی طرح ’’ مسلم‘‘ کا لفظ بار بار جس معنی میں استعمال ہوا ہے اس کے لیے نمونے کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں۔
یٰٓاَیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُو اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَا تِہٖ وِلَا تَمُوْ تُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمّوْنَ۔ (آل عمرآن۔102) اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم کو موت نہ آۓ مگر اس حال میں تم مسلم ہو۔
ھُوَسَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذا (الحج۔ 78 ) اس نے تمہارا نام پہلے بھی مسلم رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی۔
مَا کَا نَ اِبْرَا ھِیْمْ عَھُو دِیًّا وَّ لَا نَصْرَا نِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً۔(آل عمران۔ 67) ابراہیمؑ نہ یہودی تھا نصرانی، بلکہ وہ یک سُو مسلم تھا۔
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّ یَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ۔ (البقرہ۔ 128) رب، اور ہم دونوں کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی امت پیدا کر جو تیری مسلم ہو۔
یٰبَنِیَّ اِنَّ اللہَ اصْطَفیٰ لَکُمُ الدِّ یْنَ فَلَا تَمُوْ تُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (البقرہ۔132) (تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم و اسماعیل کی دعا) اے ہمارے رب، اور ہم دونوں کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی امت پیدا کر جو تیری مُسلم ہو۔
ان آیات کو پڑھ کر آخر کون یہ خیال کر سکتا ہے کہ ان میں مسلم سے مراد وہ شخص ہے جو دل سے نہ مانے، بس ظاہر طور پر اسلام قبول کر لے؟ اس لیے یہ دعویٰ کرنا قطعی غلط ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں اسلام سے مراد اطاعت بلا ایمان ہے، اور مسلم قرآن کی زبان میں محض بہ ظاہر اسلام قبول کر لینے والے کو کہتے ہیں۔ اسی طرح یہ دعویٰ کرنا بھی غلط ہے کہ ایمان اور مومن کے الفاظ قرآن مجید میں لازماً سچے دل سے ماننے ہی کے معنی میں استعمال ہوۓ ہیں۔ بلا شبہ اکثر مقامات پر یہ الفاظ اسی مفہوم کے لیے آۓ ہیں، لیکن بکثرت مقامات ایسے بھی ہیں جہاں یہ الفاظ ظاہری اقرار ایمان کے لیے بھی استعمال کیے گۓ ہیں، اور یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا۔ کہہ کر ان سب لوگوں کو خطاب کیا گیا ہے جو زبانی اقرار کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہوۓ ہوں، قطع نظر اس سے کہ وہ سچے مومن ہوں، یا ضعیف الایمان، یا محض منافق۔ اس کی بہت سی مثالوں میں سے صرف چند کے لیے ملاحظہ ہو آل عمران، آیت 156۔ النساء،126۔ المائدہ، 54۔ الانفال، 20۔27۔التوبہ، 38 الحدید، 28۔ الصّف، 2۔