سُوْرَةُ النَّبَا حاشیہ نمبر :13

13۔ اس مقام پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیےکہ یہاں بھی قرآن کے دوسرے بہت سے مقامات کی طرح قیامت کے مختلف مراحل کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے۔ پہلی آیت میں اس کیفیت کا ذکر ہے جو آخری نفخ صور کے وقت پیش آئے گی، اور بعد کی دو آیتوں میں وہ حالت بیان کی گئی ہے جو دوسرے نفخ صور کے موقع پر رونما ہو گی۔ اس کی وضاحت ہم تفہیم ا لقرآن، جلد ششم تفسیر سورۃ ا لحاقہ، حاشیہ 10 میں کر چکے ہیں۔ ’’آسمان کھول دیا جائے گا‘‘۔ سے مراد یہ ہے کہ عالم بالا میں کوئی بندش اور رکاوٹ باقی نہ رہے گی اور ہر طرف سے ہر آفت سماری اس طرح ٹوٹی پڑ رہی ہو گی کہ معلوم ہو گا گویا اس کے آنے کے لیے سارے دروازے کھلے ہیں اور اس کو روکنے کے لیے کوئی دروازہ بھی بند ن ہیں رہا ہے۔ پہاڑوں کے چلنے اور سراب بن کر رہ جانے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھتے دیکھتے پہاڑ اپنی جگہ سے اکھڑ کر اڑیں گے اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر اس طرح پھیل جائیں گے کہ جہاں پہلے کبھی پہاڑ تھے وہاں ریت کے وسیع میدانوں کے سوا اور کچھ نہ ہو گا۔ اس کیفیت کو سورہ طہٰ میں یوں بیان کیا گیا ہے ’’یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر اس دن پہاڑ کہاں چلے جائیں گے؟ اس سے کہو کہ میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بل اور سلوٹ تک نہ دیکھو گے‘‘۔ آیات 105 تا 107 مع حاشیہ 83)۔