سُوْرَةُ عَبَس حاشیہ نمبر :1

1۔ اس پہلے فقرے کا اندازِ بیان عجیب لطف اپنے اندر رکھتا ہے۔ اگرچہ بعد کے فقروں میں براہِ راست رسول اللہ ﷺ کو خطاب فرمایا گیا ہے جس سے یہ بات خود ظاہر ہو جاتی ہے کہ ترش روئی اور بے رخی برتنے کا یہ فعل حضورؐ ہی سے صادر ہوا تھا لیکن کلام کی ابتدا اس طرح کی گئی ہے کہ گویا حضورؐ نہیں بلکہ کوئی اور شخص ہے جس سے اس فعل کا صدور ہوا ہے۔ اس طرز بیان سے ایک نہایت لطیف طریقے پر رسول اللہ ﷺ کو احساس دلایا گیا ہے کہ یہ ایسا کام تھا جو آپ کے کرنے کا نہ تھا۔ آپ کے اخلاق عالیہ کو جاننے والا اسے دیکھتا تو یہ خیال کرتا کہ یہ آپ نہیں ہیں بلکہ کوئی اور ہے جو اس رویے کا مرتکب ہو رہا ہے۔
جن نابینا کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ان سے مراد، جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں، مشہور صحابی حضرت ابن ام مکتوم ہیں۔ حافظ ابن عبدابر نے الاستیعاب میں اور حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں بیان کیا ہے کہ یہ ام المومنین حضر ت خدیجہؓ کے پھوپھی زاد بھائی تھے، ان کی ماں ام مکتوب اور حضرت خدیجہؓ کے والد خویلد آپس میں بہن بھائی تھے۔ حضورؐ کے ساتھ ان کا یہ رشتہ معلوم ہو جانے کے بعد اس شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ آپ نے ان کو غریب یا کم حیثیت آدمی سمجھ کر ان سے بے رخی برتی اور بڑے آدمیوں کی طرف توجہ فرمائی تھی، کیونکہ یہ حضورؐ کے اپنے برادر ن نسبتی تھے، خاندانی آدمی تھے ، کوئی گرے پڑے آدمی نہ تھے۔ اصل وجہ جس کی بنا پر آپؐ نے ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا، لفظ اعمی (نابینا) سے معلوم ہوتی ہے جسے اللہ تعالی نے حضورؐ کی بے اعتنائی کے سبب کی حیثیت سے خود بیان فرما دیا ہے۔ یعنی حضورؐ کا یہ خیال تھا کہ میں اس وقت جن لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کر رہا ہوں ان میں سے کوئی ایک آدمی بھی ہدایت پا لے تو اسلام کو تقویت کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے، بخلاف اس کے ابن مکتوب ایک نابینا آدمی ہیں، اپنی معذوری کے باعث یہ ا سلام کے لیے اس قدر مفید ثابت نہیں ہو سکتے جس قدر ان سرداروں میں سے کوئی مسلمان ہو کر مفید ہو سکتا ہے، اس لیے ان کو اس موقع پر گفتگو میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، یہ جو کچھ سمجھنا یا معلوم کرنا چاہتے ہیں اسے بعد میں کسی وقت بھی دریافت کر سکتے ہیں۔