سُوْرَةُ الْاَعْلٰی حاشیہ نمبر :1

1۔ لفظی ترجمہ ہو گا ’’اپنے ربِِ برتر کے نام کو پاک کرو‘‘۔ اس کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں اور وہ سب ہی مراد ہیں۔
(1) اللہ تعالی کو ان ناموں سے یاد کیا جاسے جو اس کے لائق ہیں اور ایسے نام اس کی ذاتِ برتر کے لیے استعمال نہ کیے جائیں جو اپنے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے اس کے لیے موزوں نہیں ہیں، یا جن میں اس کے لیے نقص یا گستاخی یا شرک کا کوئی پہلو نکلتا ہے، یا جن میں اس کی ذات یا صفات یا افعال کے بارے میں کوئی غلط عقیدہ پایا جاتا ہے۔ اس غر ض کے لیے محفوظ ترین صورت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے وہی نام استعمال کیے جائیں جو اس نے خود قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں، یا جو دوسری زبان میں ان کا صحیح ترجمہ ہوں۔
(2) اللہ کے لیے مخلوقات کے نام، یا مخلوقات کے لیے اللہ کے ناموں جیسے نام استعمال نہ کیے جائیں۔ اور اگر کچھ صفاتی نام ایسے ہوں جو اللہ تعالی کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ بندوں کے لیے بھی ان کا استعمال جائز ہے، مثلاً رؤف ، رحیم، کریم، سمیع، بصیر وغیرہ ، تو ان میں یہ احتیاط ملحوظ رہنی چاہیے کہ بندے کے لیے ان کا استعمال اس طریقے پر نہ ہو جس طرح اللہ کے لیے ہوتا ہے۔
(3) اللہ کا نام ادب اور احترام کے ساتھ لیا جائے ، کسی ایسے طریقے پر یا ایسی حالت میں نہ لیا جائے جو اس کے احترام کے منافی ہو، مثلاً ہنسی مذاق میں یا بیت الخلاء میں یا کوئی گناہ کرتے ہوئے اس کا نام لینا، یا ایسے لوگوں کے سامنے اس کا ذکر کرنا جو اسے سن کر گستاخی پر اتر آئیں، یا ایسی مجلسوں میں اس کا نام لینا جہاں لوگ بیہودگیوں میں مشغول ہوں اور اس کا ذکر سن کر مذاق میں اڑا دیں، یا ایسے موقع پر اس کا نام پاک زبان پر لانا جہاں اندیشہ ہو کہ سننے والا اسے ناگواری کے ساتھ سنے گا۔ امام مالک کے حالات میں منقول ہے کہ جب کوئی سائل ان سے کچھ مانگتا اور وہ اس وقت اسے کچھ نہ دے سکتے تو عام لوگوں کی طرح ا للہ دے گا نہ کہتے بلکہ کسی اور طرح معذرت کر دیتے تھے۔ لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ سائل کو جب کچھ نہ دیا جائے اور اس سے معذرت کر دی جائے تو لامحالہ اسے ناگوار ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر میں اللہ کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص اسے ناگواری کے ساتھ سنے۔
احادیث میں حضرت عقبہ بن عامر جہنی سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدے میں سجان ربی الاعلی پڑھنے کا حکم اسے آیت کی بنا پر دیا تھا، اور رکوع میں سبحان ربی العظیم پڑھنے کا جو طریقہ حضورؐ نے مقرر فرمایا تھا وہ سورہ واقعہ کی آخری آیت فسبخ باسم ربک العظیم۔ پر مبنی تھا (مسند احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ، ابن حبان، حاکم، ابن المنذر)۔