سُوْرَةُ الْاَعْلٰی حاشیہ نمبر :4

4۔ یعنی کسی چیز کو بھی محض پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا ، بلکہ جو چیز بھی جس کام کے لیے پیدا کی اسے اس کام کے انجام دینے کا طریقہ بتایا۔ بالفاظ دیگر وہ محض خالق ہی نہیں ہے، ھادی بھی ہے۔ اس نے یہ ذمہ لیا ہے کہ جو چیز جس حیثیت میں اس نے پیدا کی ہے اس کو ویسی ہی ہدایت دے جس کے وہ لائق ہے اور اسی طریقہ سے ہدایت دے جو اس کے لیے موزوں ہے۔ ایک قسم کی ہدایت زمین اور چاند سورج اور تاروں اور سیاروں کے لیے ہے جس پر وہ سب چل رہے ہیں اور اپنے حصے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ ایک اور قسم کی ہدایت پانی اور ہوا اور روشنی اور جمادات و معدنیات کے لیے ہے جس کے مطابق وہ ٹھیک ٹھیک وہی خدامات بجا لا رہے ہیں جن کے لیے انہیں پیدا کیا گیا ہے۔ ایک اور قسم کی ہدایت نباتات کے لیے ہے جس کی پیروی میں وہ زمین کے اندر اپنی جڑیں نکالتے اور پھیلاتے ہیں، اس کی تہوں سے پھوٹ کر نکلتے ہیں، جہاں جہاں اللہ نے ان کے لیے غذا پیدا کی ہے وہاں سے اس کو حاصل کرتے ہیں، تنے شاخیں، پتیاں، پھل پھول لانے ہیں اور وہ کام پورا کرتے ہیں جو ان میں سے ہر ایک کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے۔ ایک اور قسم کی ہدایت خشکی ، تری اور ہوا کے حیوانات کی بے شمار انواع اور ان کے ہ ر فرد کے لیے ہے جس کی حیرت انگیز مظاہر جانوروں کی زندگی اور ان کے کاموں میں علانیہ نظر آتے ہیں ، حتی کہ ایک دہر یہ بھی یہ ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مختلف قسم کے جانوروں کو کوئی ایسا الہامی علم حاصل ہے جو انسان کو اپنے حواس تو درکنار ، اپنے آلات کے ذریعہ سے بھی حاصل نہیں ہو تا۔ پھر انسان کے لیے دو الگ الگ نوعیتوں کی ہدایتیں ہیں جو اس کی دو الگ حیثیتوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔ ایک وہ ہدایت جو اس کی حیوانی زندگی کے لیے ہے، جس کی بدولت ہر بچہ پیدا ہوتے ہی دودھ پینا سیکھ لیتا ہے، جس کے مطابق انسان کی آنکھ، ناک، کان، دماغ، پھیپھڑے، گردے، جگر، معدہ، آنتیں، اعصاب، رگیں اور شریانیں، سب اپنا اپنا کام کیے جا رہے ہیں بغیر اس کے کہ انسان کو اس کا شعور ہو یا اس کے ارادے کا ان اعضاء کے کاموں میں کوئی دخل ہو۔ یہی ہدایت ہے جس کے تحت انسان کے ا ندر بچپن ، بلوغ، جوانی، کہولت اور بڑھاپے کے وہ سب جسمانی اور ذہنی تغیرات ہوتے چلے جاتے ہیں جو اس کے ا رادے اور مرضی ، بلکہ شعور کے بھی محتاج نہیں ہیں۔ دوسری ہدایت انسان کی عقلی اور شعوری زندگی کے لیے ہے جس کی نوعیت غیر شعوری زندگی کی ہ دایت سے قطعاً مختلف ہے، کیونکہ اس شعبہ حیات میں انسان کی طرف ایک قسم کا اختیار منتقل کیا گیا ہے جس کے لیے ہدایت کا وہ طریقہ موزوں نہیں ہے جو بے اختیارانہ زندگی کے لیے موزوں ہے۔ انسان اس آخری قسم کی ہدایت سے منہ موڑنے کے لیے خواہ کتنی ہی حجت بازیاں کرے، لیکن یہ بات ماننے کے لائق نہیں ہے کہ جس خالق نے اس ساری کائنات میں ہر چیز کے لیے اس کی ساخت اور حیثیت کے مطابق ہدایت کا انتظام کیا ہے اس نے انسان کے لیے یہ تقدیر تو بنا دی ہو گی کہ وہ اس کی دنیا م یں اپنے اختیار سے تصرفات کرے مگر اس کو یہ بتاتے کا کوئی انتظام نہ کیا ہو گا کہ اس اختیار کے استعمال کی صحیح صورت کیا ہے اور غلط صورت کیا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل ، حواشی 9۔10۔14۔56۔ جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ 23۔ جلد پنجم۔ الرحمن، حواشی 2۔3۔ جلد ششم، الدھر، حاشیہ 5)۔