سُوْرَةُ الْاَعْلٰی حاشیہ نمبر :8

8۔ اس فقرے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ پورے قرآن کا لفظ بلظ آپ کے حافظے میں محفوظ ہو جانا آپ کی اپنی قوت کا کرشمہ نہیں ہے بلکہ اللہ کے فضل اور اس کی توفیق کا نتیجہ ہے، ورنہ اللہ چاہے تو اسے بھلا سکتا ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو دوسری جگہ قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے ۔ وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ،(بنی اسرائیل، 86) ‘‘اگر ہم چاہیں تو وہ سب کچھ تم سے چھین لیں جو ہم نے وحی کے ذریعہ سے تمہیں عطا کیا ہے’’۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کبھی وقتی طور پر آپ کو نسیان لاحق ہو جانا اور آپ کا کسی آیت یا لفظ کو کسی وقت بھول جانا اس وعدے سے مستثنی ہے۔ وعدہ جس بات یا کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ مستقل طور پر قرآن کے کسی لفظ کو نہیں بھول جائیں گے۔ اس مفہوم کی تائید صحیح بخاری کی اس وایت سے ہوتی ہے کہ ایک مرتبہ صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ وسلم قرات کے دوران میں ایک آیت چھوڑ گئے۔ نماز کے بعد حضرت ابی بن کعب نے پوچھا کیا ہ آیت منسوخ ہو چکی ہے؟ حضورؐ نے فرمایا نہیں، میں بھول گیا تھا۔