سُوْرَةُ الْفَجْر حاشیہ نمبر :2

2۔ جزا و سزا پر شب و روز کے نظام سے استدلال کرنے کے بعد اس کے ایک یقینی حقیقت ہونے پر انسانی تاریخ سے استدلال کیا جا رہا ہے۔ تاریخ کی چند معروف قوموں کے طرز عمل اور ان کے انجام کے ذکر سے مقصود یہ بتایا ہے کہ یہ کائنات کسی اندھے بہرے قانون ِ فطرت پر نہیں چل رہی ہے بلکہ ایک خدائے حکیم اس کو چلا رہا ہے اور اس خدا کی خدائی میں صرف ایک وہی قانون کار فرما نہیں ہے جسے تم قانون فطرت سمجھتے ہو، بلکہ ایک قانونِ اخلاق بھی کار فرما ہے جس کا لازمی تقاضا مکافاتِ عمل اور جزا اور سزا ہے۔ اس قانون کی کار فرمائی کے آثار خود اس دنیا میں بھی بار بار ظاہر ہوتے رہے ہیں جو عقل رکھنے والوں کو یہ بتاتے ہیں کہ سلطنت کائنات کا مزاج کیا ہے۔ یہاں جن قوموں نے بھی آخرت سے بے فکر اور خدا کی جزا و سزا سے بے خوف ہو کر اپنی زندگی کا نظام چلایا وہ آخر کار فاسد و مفسد بن کر رہیں، اور جو قوم بھی اس راستے پر چلی اس پر کائنات کے رب نے آخر کار عذاب کا کوڑا برسا دیا۔ انسانی تاریخ کا یہ مسلسل تجربہ دو باتوں کی واضح شہادت دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ آخرت کا انکار ہر قوم کے بگاڑنے اور بالآخر تباہی کے غار میں دھکیل دینے کا موجب ہوا ہے اس لیے آخرت فی الواقع ایک حقیقت ہے جس سے ٹکرانے کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہر حقیقت سے ٹکرانے کا ہوا کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جزائے اعمال کسی وقت مکمل طور پر بھی واقع ہونے والی ہے، کیونکہ فساد کی آخری حد پر پہنچ کر عذاب کا کوڑا جن لوگوں پر برسا ان سے پہلے صدیوں تک بہت سے لوگ اس فساد کے بیج بو کر دنیا سے رخصت ہو چکے تھے اور ان پر کوئی عذاب نہ آیا تھا۔ خدا کے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کسی وقت ان سب کی باز پرس بھی ہو اور وہ بھی اپنے کیے کی سزا پائیں (قرآن مجید میں آخرت پر یہ تاریخی اور اخلاقی استدلال جگہ جگہ کیا گیا ہے اور ہم نے ہر جگہ اس کی تشریح کی ہے۔ مثال کے طورپر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: تفہیم القرآن ، جلد دوم، الاعراف، حواشی 5۔6۔ یونس ، حاشیہ 12۔ ہود، حواشی 57۔105۔115۔ ابراہیم، حاشیہ 9۔ جلد سوم، النمل ، حواشی، 62۔86۔ الروم، حاشیہ 8۔ جلد چہارم، سبا ، حاشیہ 25، ص، حواشی 29۔30۔ المومن، حاشیہ 80۔ الدخان، حواشی 33۔34۔ الجاثیہ، حواشی 27۔28۔ جلد پنجم، ق، حاشیہ 17۔ الذرایات، حاشیہ 21)۔