سُوْرَةُ الْبَلَد حاشیہ نمبر :1

1۔ اس سے پہلے ہم سورہ قیامہ میں حاشیہ نمبر 1 میں اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ کلام کا آغاز ‘‘نہیں’’ سے کرنا اور پھر قسم کھا کر آگے بات شروع کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ لوگ کوئی غلط بات کہہ رہے تھے جس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ نہیں، بات وہ نہیں ہے جو تم سمجھے بیٹھے ہو، بلکہ میں فلاں فلاں چیزوں کی قسم کھاتا ہوں کہ اصل بات یہ ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ بات کیا تھی جس کی تردید میں یہ کلام نازل ہوا، تو اس پر بعد کا مضمون خود دلالت کر رہا ہے۔ کفار مکہ یہ کہتے تھے کہ ہم جس طرز زندگی پر چل رہے ہیں اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، دنیا کی زندگی بس یہی کچھ ہے کہ کھاؤ پیو، مزے اڑاؤ، اور جب وقت آ تو مر جاؤ۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خواہ مخواہ ہمارے اس طرز زندگی کو غلط ٹھیرا رہے ہیں اور ہمیں ڈرا رہے ہیں کہ اس پر کبھی ہم سے باز پرس ہو گی اور ہمیں جزا و سزا سے سابقہ پیش آئے گا۔