سُوْرَةُ الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :307

یعنی اگر تم یہ پسند کرتے کہ تمہاری عمر بھر کی کمائی ایک یسے نازک موقع پر تباہ ہوجائے، جبکہ تم اُس سے فائدہ اُٹھانے کے سب سے زیادہ محتاج ہو اور ازسرِ نو کما ئی کرنے کا موقع بھی باقی نہ رہا ہو، تو یہ بات تم کیسے پسند کر رہے ہو کہ دُنیا میں مدّت العمر کام کرنے کے بعد آخرت کی زندگی میں تم اِس طرح قدم رکھو کہ وہاں پہنچ کر یکایک تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا پُورا کارنامہء حیات یہاں کوئی قیمت نہیں رکھتا، جو کچھ تم نے دُنیا کے لیے کماتا تھا، وہ دُنیا ہی میں رہ گیا، آخرت کے لیے کچھ کما کر لائے ہی نہیں کہ یہاں اُس کے پھل کھا سکو۔ وہاں تمہیں اس کا کوئی موقع نہ ملے گا کہ ازسرِ نو اب آخرت کے لیے کمائی کرو۔ آخرت کے لیے کام کرنے کا جو کچھ بھی موقع ہے، اِسی دُنیا میں ہے۔ یہاں اگر تم آخرت کی فکر کیے بغیر ساری عمر دُنیا ہی کی دُھن میں لگے رہے اور اپنی تمام قوتیں اور کوششیں دُنیوی فائدے تلاش کرنے ہی میں کھپاتے رہے ، تو آفتابِ زندگی کے غروب ہونے پر تمہاری حالت بعینہ١اُس بڈھے کی طرح حسرت ناک ہوگی، جس کی عمر بھر کی کمائی اور جس کی زندگی کا سہارا ایک باغ تھا اور وہ باغ عین عالمِ پیری میں اُس وقت جل گیا، جبکہ نہ وہ خود نئے سرے سے باغ لگا سکتا ہے اور نہ اُس کی اولاد ہی اس قابل ہے کہ اس کی مدد کر سکے۔