سُوْرَةُ حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :40

40۔ شیطان کو سخت تشویش لاحق ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں کمینگی کا مقابلہ شرافت کے ساتھ اور بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک ہی مرتبہ سہی، حق کے لیے لڑنے والوں ، اور خصوصاً ان کے سربرآوردہ لوگوں ، اور سب سے بڑھ کر ان کے رہنما سے کوئی ایسی غلطی کرا دے جس کی بنا پر عامۃ الناس سے یہ کہا جا سکے کہ دیکھیے صاحب، برائی یک طرفہ نہیں ہے، ایک طرف سے اگر گھٹیا حرکتیں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف کے لوگ بھی کچھ بہت اونچے درجے کے انسان نہیں ہیں ، فلاں رکیک حرکت تو آخر انہوں نے بھی کی ہے۔ عامۃ الناس میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ٹھیک انصاف کے ساتھ ایک طرف کی زیادتیوں اور دوسرے طرف کی جوابی کاروائی کے درمیان موازنہ کر سکیں ۔ وہ جب تک یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ مخالفین ہر طرح کی ذلیل حرکتیں کر رہے ہیں مگر یہ لوگ شائستگی و شرافت اور نیکی و راستبازی کے راستے سے ذرا نہیں ہٹتے، اس وقت تک وہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن اگر کہیں ان کی طرف سے کوئی بیجا حرکت،یا ان کے مرتبے سے گِری ہوئی حرکت سرزد ہو جاۓ، خواہ وہ کسی بڑی زیادتی کے جواب ہی میں کیوں نہ ہو، تو ان کی نگاہ میں دونوں برابر ہو جاتے ہیں ، اور مخالفین کو بھی ایک سخت بات کا جواب ہزار گالیوں سے دینے کا بہانا مل جاتا ہے۔ اسی بنا پر ارشاد ہوا کہ شیطان کے فریب سے چوکنے رہو۔ وہ بڑا درد مند و خیر خواہ بن کر تمہیں اشتعال دلاۓ گا کہ فلاں زیادتی تو ہر گز برداشت نہ کی جانی چاہیے، اور فلاں بات کا تو منہ توڑ جواب دیا جانا چاہیے، اور اس حملے کے جواب میں تو لڑ جانا چاہیے ورنہ تمہیں بزدل سمجھا جاۓ گا اور تمہاری ہوا اکھڑ جاۓ گی۔ ایسے ہر موقع پر جب تمہیں اپنے اندر اس طرح کا کوئی نا مناسب اشتعال محسوس ہو تو خبردار ہو جاؤ کہ یہ شیطان کی اکساہٹ ہے جو غصہ دلا کر تم سے کوئی غلطی کرانا چاہتا ہے۔ اور خبردار ہو جانے کے بعد اس زعم میں نہ مبتلا ہو جاؤ کہ میں اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہوں ، شیطان مجھ سے کوئی غلطی نہیں کرا سکتا۔ یہ اپنی قوت فیصلہ اور قوت ارادی کا زعم شیطان کا دوسرا اور زیادہ خطرناک فریب ہو گا۔ اس کے بجاۓ تم کو خدا سے پناہ مانگنی چاہیے، کیونکہ وہی توفیق دے اور حفاظت کرے تو آدمی غلطیوں سے بچ سکتا ہے۔
اس مقام کی بہترین تفسیر وہ واقعہ ہے جو امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت ابوہریرہؓ سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بے تحاشا گالیاں دینے لگا۔ حضرت ابو بکرؓ خاموشی کے ساتھ اس کی گالیاں سنتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم انہیں دیکھ کر مسکراتے رہے۔ آخر کار جناب صدیقؓ کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور انہوں نے بھی جواب میں اسے ایک سخت بات کہہ دی۔ ان کی زبان سے وہ بات نکلتے ہی حضورؐ پر شدید انقباض طاری ہوا جو چہرہ مبارک پر نمایا ہونے لگا اور آپ فوراً اٹھ کر تشریف لے گۓ۔ حضرت ابو بکرؓ بھی اٹھ کر آپ کے پیچھے ہو لیے اور راستے میں عرض کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے، وہ مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپ خاموش مسکراتے رہے، مگر جب میں نے اسے جواب دیا تو آپ ناراض ہو گۓ؟ فرمایا ’’ جب تک تم خاموش تھے، ایک فرشتہ تمہارے ساتھ رہا اور تمہاری طرف سے اس کو جواب دیتا رہا، مگر جب تم بول پڑے تو فرشتے کی جگہ شیطان آ گیا۔ میں شیطان کے ساتھ تو نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ ‘‘